مسلمان سائنسدان
مسلمان سائنسدان
درس قرآن
اللہ کے نزدیک پسندیدہ افراد
شیخ التفسیر علامہ حبیب الرحمٰن گبول
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یَا اَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ
ترجمہ: اے انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک تم سب میں بڑی عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب جاننے والا خبردار ہے۔
ربط
سابقہ آیات میں انسانوں کے باہمی حقوق کے سلسلے میں مختلف قسم کے آداب و احکام ذکر کئے گئے اور اس آیت مبارکہ میں تمام انسانوں کی مساوات کا ذکر ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے حسب و نسب یا خاندان کی بنا پر دوسرے سے افضل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور افضلیت کا دارومدار تقویٰ اور پرہیزگاری پر ہے۔ اس لیے وہی خوب جانتا ہے کہ کون کس کس سے اعلیٰ اور کون ادنیٰ ہے۔
شان نزول
ایک بار حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کے بازار سے گذر رہے تھے کہ آپ نے ایک سیاہ فام غلام کی آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا کہ ”مجھے وہ خریدے جسے یہ شرط قبول ہو کہ مجھے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے سے نہیں روکے گا“ اسے ایک آدمی نے خرید لیا اور وہ غلام باقاعدگی سے تمام نمازوں پر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو نظر آتا تھا۔ ایک بار اسے نہ پاکر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالک سے دریافت فرمایا۔ اس نے عرض کیا کہ اسے بخار ہے۔ چنانچہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ چند دن بعد پھر آپ نے اس کے بارے میں پوچھا۔ بتایا گیا کہ اب اس کی موت کی تیاری معلوم ہوتی ہے۔ یہ سن کر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور وہ آخری سانس لے رہا تھا۔ جب وہ فوت ہوگیا حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم اس کے غسل اور دفن تک شامل رہے اور وہ بھی وارث کی حیثیت سے۔ یہ صورتحال مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کو پسند نہ آئی کہ ایک غلام کے معاملہ میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس قدر تکلف سے کام لے رہے ہیں۔ اس موقعہ پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، جس میں بتایاگیا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور قدر و منزلت صاحب تقویٰ کو حاصل ہے خواہ وہ حبشی غلام کیوں نہ ہو۔ (روح البیان صفحہ 60)
بعض مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت مبارکہ فتح مکہ کے موقعہ پر اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان کا ارشاد فرمایا تو قریش مکہ جو مسلمان نہیں ہوئے تھے، کو یہ بات ناگوار گذری۔ ان میں سے ایک نے کہا خدا کا شکر ہے میرا باپ اس سے پہلے فوت ہوگیا اور اس نے یہ دن نہیں دیکھا کہ آج حرم کعبۃ اللہ میں بلاوے کے لیے ایک حبشی بدیسی غلام کو منتخب کیا گیا ہے۔ ایک اور نے کہا کیا محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کو اس کالے کوے کے علاوہ کوئی اور نہ ملا جو اذان دیتا۔ ابوسفیان نے کہا میں کچھ نہیں کہوں گا، میں ڈرتا ہوں کہ جو کچھ کہوں گا اس پر آسمانوں کا رب اسے خبر کردے گا۔ چنانچہ جبریل امین علیہ السلام نے آکر رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ بتایا جو انہوں نے کہا تھا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلاکر دریافت فرمایا کہ کیا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے اقرار کرلیا۔ اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں قوم، قبیلہ، مال، دولت، رنگ و نسل اور ملک و وطن کی بنا پر کسی کو بہتر اور کسی کو کمتر سمجھنے کی نفی کرکے بتایا گیا کہ تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں محض اس لیے تقسیم کیا گیا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ درحقیقت معزز و محترم وہی ہے جو عنداللہ تعالیٰ عزت پائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور عزت پانے کا معیار نہ رنگ و نسل ہے نہ زبان و وطن، نہ ہی جنسیت مرد و زن۔ بلکہ وہاں فضل و مرتبہ کا مدار صرف اور صرف تقویٰ و پرہیزگاری پر ہے۔ رنگوں، زبانوں، طبعیتوں اور صلاحیتوں میں تفاوت کسی اختلاف کے متقاضی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے اس کے متعلقہ امور میں تعاون کی متقاضی ہیں، تاکہ جملہ حاجات و معاملات باہمی تعاون سے درستگی سے انجام دے پاسکیں۔ جنس، زمین، قبیلہ بلکہ گھر تک عصبتیں دور جاہلیت کی اسلام کی روشنی پھیلنے سے پہلے زمانہ کفر کی عصبتیں ہیں۔ جن کے بارے میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ادعوھا فانتھا منتنۃ“۔ اسے چھوڑدو اس سے بدبو پھیلے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے ان امور کو ایک دوسرے پر فخر و سربلندی کا معیار سمجھا اس سے منافرتیں پھیلیں اور اس کے متعدی فساد نے کئی قوموں اور قبیلوں بلکہ ملکوں کو نیست و نابود کردیا۔
افضلیت کا مدار
سیدہ درّہ بنت ابی لہب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک بار حضور انور صلّی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بہتر کون ہے؟ فرمایا ”خیر الناس اقرءھم واتقاھم للہ عزوجل و آمرھم بالمعروف و انہاھم عن المنکر و اوصلہم للرحم“۔ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو ان میں سے زیادہ علم رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو، نیکی کا امر کرنے والا ہو، برائیوں سے روکنے والا ہو، صلہ رحمی کرنے والا ہو۔
ایک اور حدیث شریف میں ہے ”ان ربکم واحد وابا کم واحدہ لافضل لعربی علیٰ عجمی ولالعجمی علیٰ عربی ولا لاحمر علیٰ اسود ولا لاسود علیٰ احمدر الابالتقویٰ“ تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ آدم علیہ السلام ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں، نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت ہے اور نہ سرخ کو سیاہ پر فضیلت ہے اور نہ سیاہ فام کو سرخ پر فضیلت ہے، مگر تقویٰ پر فضیلت کا مدار ہے۔
نبی خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا اے الناس افضل! لوگوں میں کون افضل ہے؟ جوابا آپ نے مٹی کی دو مٹھیاں بھر کر اس سے پوچھا ان میں کونسی مٹی افضل ہے، پھر ان کو ملاکر پھینک دیا اور ارشاد فرمایا ”الناس کلہم من تراب واکرمہم عنداللہ اتقاھم“ تمام لوگ مٹی کی پیداوار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں معزز وہی ہے جو زیادہ متقی ہے۔
ایک اور حدیث شریف میں وارد ہے ”لیس لاحد علیٰ احد فضل الابدین اوعمل صالح“۔
کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت نہیں مگر دین یا نیک عمل کی وجہ سے (ایک دوسرے سے افضل ہوسکتا ہے)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک منادی ندا دے گا سن لو میں نے ایک نسب مقرر کیا اور تم نے بھی ایک نسب مقرر کیا۔ میں نے سب سے بڑھ کر محترم متقی کو قرار دیا تھا۔ تم نے اسے قبول نہیں کیا، بلکہ تم یہ کہتے تھے کہ فلاں ابن فلاں، فلاں ابن فلاں سے افضل ہے۔ آج میں اپنے مقرر کردہ نسب کو بلند کرتا ہوں اور تمہارے قائم کردہ نسب کو نیچے گراتا ہوں۔ اب کہاں ہیں اہل تقویٰ۔
شعوب، قبائل
عرب حضرات نسب کے لحاظ سے خاندانی حلقوں کو شعب، قبیلہ، عشیرہ وغیرہ کے ذریعے تقسیم کرتے تھے۔ ان کے یہاں بڑے خاندانی حلقے کو شعب کہا جاتا ہے جس میں کئی ایک قبیلے داخل ہوتے ہیں اور سب سے چھوٹے خاندانی حلقے کو عشیرہ کہتے ہیں۔
ابووراق کے قول کے مطابق کسی خاندانی مورث اعلیٰ کی طرف سے نسبت کرنے کو شعب کہتے ہیں جیسے حسنی، حسینی۔ جبکہ شہر یا گاؤں کی طرف نسبت کرنے کو شعب کہتے ہیں جس طرح حیدرآبادی، اللہ آبادی وغیرہ۔ بعض اہل علم کا قول یہ ہے کہ شعوب کا اطلاق عجمی خاندانوں پر ہوتا ہے اور قبیلوں کا اطلاق عرب کنبوں پر ہوتا ہے اور اسباط کا اطلاق بنی اسرائیل پر ہوتا ہے۔
نسب کی اہمیت
نسب کی اہمیت عرف میں بھی معتبر ہے اور شریعت مطہرہ میں بھی۔ خود حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ”تعلموا من انسابکم“ فرماکر نسب کی اہمیت کو واضح فرمایا۔ نسب ہی کی بدولت عصبات و دیگر دور و نزدیک کے رشتوں کا پتہ چلتا ہے اور اسی کے مطابق حقوق شرعیہ ادا کیے جاتے ہیں اور نکاح کے موقع پر کفو کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس تفریق کے بالمقابل ایمان و تقویٰ کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے، جس طرح ستاروں کے مابین فرق ہے لیکن سورج کے طلوع ہوتے ہی وہ معدوم ہوجاتے ہیں۔
بعینہ اسی طرح ایمان و تقویٰ کے بالمقابل خاندانی حسب و نسب ہیچ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی فاسق و فاجر آدمی نسلاً قریشی ہو اور اس کے پاس قارون کی طرح مال و دولت کی ریل پیل ہو، وہ کسی قریش کا کفو تو نہیں غیر قریشی النسل متقی و پرہیزگار کا کفو بھی نہیں۔
بعض غافل سنی احباب اپنی قومی قرابتداری و رشتہ داری کی بنا پر اپنے لڑکوں لڑکیوں کے نکاح ملحد فرقوں میں کرتے ہیں جو کسی صورت میں جائز نہیں۔ ایسا رشتہ توڑ کر غیرت ایمان کا ثبوت دے کر اپنے اور متعلقین کو عذاب آخرت سے بچانا چاہیے۔
حسب و نسب، مال و دولت اور قوم و وطن کی بنا پر اعلیٰ و ادنیٰ کی تفریق کرنے والوں کو صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( فارسی النسل تھے لیکن رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے سلمان منا اہل البیت فرماکر اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا تھا) کا درج ذیل قابل تقلید شعر پیش نظر رکھ کر اپنی اصلاح کرنی چاہیے
ابی الاسلام لااب لئی سواہ
اذا افتخروا بقیس او تمیم
اذا افتخروا بقیس او تمیم
میں فرزند اسلام ہوں میرا کوئی باپ نہیں، جب قیس یا تمیم قبیلوں پر فخر کریں۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ
Comments