طب، تحریک پاکستان کیلئے شفاء الملک کی خدمات۔۔۔علامہ عبدالستار عاصم


طب، تحریک پاکستان کیلئے شفاء الملک کی خدمات۔۔۔علامہ عبدالستار عاصم

چاردسمبر1974ء کادن پاکستان کی طبی دنیا اور حقیقی اسلامی سیاست کے علمبرداروں کیلئے روز الم کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس روز شفا الملک حکیم محمد حسن قرشی جیسا سراپا علم و حکمت، ماہر طب اور اتحاد امت اسلامیہ روشن آفتاب ایک عالم کو اپنی حکیمانہ ، درویشانہ اور فرزانہ ضیاء پاشیوں سے منورکرکے غروب ہوگیا، شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی قاضی فضل الدین  کے فرزند صغیر تھے،ان کے ایک بھائی محمد حسین اور ایک چھوٹی ہمشیرہ تھیں، شفاء الملک کے والد محترم قاضی فضل الدین چودھویں صدی کے صدرالصدور حضرت مفتی صدر الدین آزردہ کے تلامذہ میں سے تھے۔ قاضی فضل الدین ایک باعمل مسلمان نثر نگار مصنف اور فارسی زبان کے قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ کاحمدیہ اور نعتیہ کلام نہایت عمدہ ہے۔ قاضی فضل الدین سلسلہ چشتیہ میں قطب وقت حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی سے بیعت تھے ۔اسی بناء پر ان کے مزاج پردینی رنگ نمایاں تھا۔ قاضی فضل الدین  کی دونوں کتب اجوبتہ السالکین اور انوار نعمانیہ آپ کی دینی فصاحت و بلاغت کی آئینہ دار ہیں، قاضی فضل الدین  لدھیانہ کے بعض علماء کے ہمراہ کابل بھی گئے وہاں آپ دربار کابل سے بھی منسلک رہے وہیں آپ کی ملاقات مشہور مفکر اسلام جمال الدین افغانی سے بھی ہوئی۔ کابل سے واپسی پر آپ نابھہ ریاست میں وارد ہوئے۔ وہاں سے بہاولپور تشریف لے گئے پھر کچھ عرصہ کیلئے کشمیر میں بھی مقیم رہے۔ وہاں آپ محکمہ تاریخ میں وقائع نگار اور پھر سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ کشمیر سے آپ گجرات تشریف لائے۔ گجرات میں آپ نے قاضی عدالت کی خدمات سرانجام دیں۔ وہیں قیام کے دوران ہی آپ کے ہاں 1896ء میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے محمد حسن رکھا۔ شفاء الملک حضرت حکیم محمد حسن قرشی نے اپنی ابتدائی تعلیم گجرات میں ہی حاصل کی۔ بعدازاں لاہور تشریف لے آئے اور یہاں اسلامیہ کالج میں مزید تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران آپ کو علم طب سے بھی شغف ہوا اور اس تعلیم کے حصول کا آغاز بھی آ پ نے لاہور ہی سے کیا۔ طب سے آپ کی خصوصی دلچسپی ہی آپ کو دہلی لے گئی۔ جہاں آپ نے طبی تعلیم کی تکمیل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے طبیہ کالج دہلی میں ہی تدریس کے فرائض سنبھال لیے اور طب اسلامی کی ترویج کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد جب آپ بمبئی تشریف لے گئے تو وہاں بھی طب کی خدمت کے لیے ایک مطب قائم کیا۔ 1920ء میں آپ بمبئی کو خیر باد کہہ کر لاہور میں قیام پذیر ہوگئے۔ لاہور میں آپ نے پنجاب طبی کانفرنس کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر مقرر ہوئے۔ اپنے استاد حضرت مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کی قائم کردہ آل انڈیا آیو ر ویدک یونانی طبی کانفرنس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس عظیم تنظیم کے دو سالانہ اجلاسوں کی صدارت بھی کی۔ اس تنظیم کی کامیابیوں میں شفاء الملک کا کردار بہت نمایاں ہے۔ شفاء الملک تاریخ طب کے نامور طبیب علامہ علاؤالدین قرشی کی کتاب ''موجزن القانون ''کے ترجمہ کا حکم دیا چنانچہ شاگرد خاص نے اپنے استاد محترم کے حکم کی تعمیل کی اور اس انہماک ، تدبر اور دانش سے ترجمہ کیا کہ جسے دیکھ کر مسیح الملک نے محمد حسن کو'' قرشی'' کہہ کر پکارا اس دن سے آپ کا لقب قرشی پڑ گیا۔ دانا استاد کا ایک قابل شاگرد کو دیا ہوا لقب آج پورے پاکستان میں شفاء خلوص اور اعتماد کی پہچان بن کر گونج رہا ہے۔ ویسے لفظ قرشی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ علامہ علاؤ الدین قرشی ''قرش'' شہر کے رہنے والے تھے اور اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ انہوں نے لفظ قرشی لگایا ہوا تھا۔ مگر جب یہ خطاب بن کر شفا الملک کے نام کے ساتھ جڑا تو ہر طرف قرشی، قرشی ہوگیا۔ شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے معالج اور رفیق تھے۔شفاء الملک کے ذہن میں حضرت علامہ محمد اقبال کی یہ خواہش محفوظ تھی کہ برصغیر میں کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہیے۔ جو ایسی ادویات کے مرکبات کو صحیح ، خالص اور معیاری اجزاء سے تیار کرے۔جو ادویات طب نبوی ۖ کے مطب کی عام طور پر ضرورت ہوتی ہیں، حضرت علامہ اقبال طب کے مداح تھے اور اسے قدرتی طریقہ علاج قرار دیتے تھے۔ اس ضمن میں وہ شفا الملک کی اعلیٰ حکیمانہ صلاحیتو ں کے بھی معترف تھے۔ لہٰذاعلامہ اقبال کی خواہش اور شفاء الملک کی قائدانہ کوششوں کے نتیجہ میں 1937ئمیں قومی دواخانہ کا قیام اجراء ہوا۔ بعد ازاں اس دواخانہ سے ایسی ادویات تیار ہوئیں جو ایک مطب نبوی کے مطب کی ضروریات کو پورا کریں جبکہ عوام اور خواص کا مسلسل اصرار تھا کہ ادویات کو وسیع پیمانے پر تیار کرکے مارکیٹ بھیجا جائے تاکہ عوام کو خالص معیاری ادویات مل جائیں۔ یہ عوام کا اصرار بھی تھا اور علامہ اقبال کا خواب بھی۔ جو کہ شفاء الملک نے پورا کیا۔بعدازاں 17مارچ 1968ء کو عالم اسلام کی مقتدر شخصیت مفتی اعظم فلسطین سید امین الحینی نے اپنے دست مبارک سے برصغیر پاک و ہند میں دوا سازی کے نئے دور کا افتتاح کیا۔ شفاء الملک کو تشخیص امراض میں بڑی شہرت حاصل تھی۔ طب جدید سے مایوس مریض دور دور سے آکر آپ سے طبی مشورہ اور علاج کے لیے رجوع کرتے۔طب جدید میں طویل ٹیسٹوں اور رپورٹوں کے بعد امراض کے سلسلہ میں نتیجہ حاصل کیا جاتا ہے جبکہ طب اسلامی میں طبیب بغیر ٹیسٹوں اور رپورٹوں کے تشخیص کرلیتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اطبائے قدیم کے رموز و نکات سے آگاہ ہو۔ دور جدید کی تحقیق سے واقف ہو۔ علاج کیلئے ادویات کے انتخاب میں ماہرہو۔ پھر وہ خلق خدا کی بہتر خدمت کرسکتا ہے۔ شفاء الملک خود تو ایسے رموز سے بخوبی واقف تھے۔ لیکن وہ یہ چاہتے تھے کہ برصغیر پاک وہندکا ہر طبیب یہ علم رکھتا ہو۔ پھر اسے مارکیٹ سے معیاری اور اپنے مطب کی ضرورت کے مطابق ادویات فراہم ہوں ۔ القصہ برصغیر پاک و ہند میں طب نبویۖ کی ترویج و فروغ کیلئے شفا ء الملک نے نہ صرف طبی میدان میں بلکہ طب سے متعلقہ سیاست میں بھی حکماء کی ترقی اور بحالی کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا۔ تحریک پاکستان کے حوالہ سے شفاء الملک کی جدوجہد کا محض ایک پہلو یہاں رقم کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال ہندوستان میں اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں و متمنی تھے جبکہ ان کے خصوصی نیاز مندوں میں شفا الملک حکیم محمد حسن قریشی ، راجہ حسن اختر، سید نذیر نیازی ، خواجہ عبدالرحیم ،میاں محمد شفیع ، ڈاکٹر عبدالحمید اور دیگر شامل تھے۔ جوکہ تحریک پاکستان کے لے سرگرم عمل تھے۔ ان حضرات محترم نے مسلم لیگ کو پاکستان کی تجویز منظور کرنے کیلئے آمادہ کیا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب قائد اعظم نے فرمایا مسلم لیگ کی پاکستان کی تجویز کو اس وقت منظور نہیں کرسکتی مگر آپ لوگ پاکستان گروپ کا ایک نمائندہ دیجئے جسے میں مسلم لیگ مجلس میں نامزد کروں گا۔ خواجہ عبدالرحیم اور دوسرے دوستوں نے شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی کا نام تجویز کیا ، چودھری رحمت علی سے مشورہ کیا گیا وہ اسلامیہ کالج میں حکیم محمد حسن کے ہم جماعت رہ چکے تھے وہ آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ۔ انہوں نے بھی اس تجویز کو پسند کیا، مگر حالات نے ایسی کروٹ لی کہ مسلم لیگ نے قرار داد پاکستان منظور کرلی اور اس طرح پاکستان گروپ کی نمائندگی کا مسئلہ ختم ہوگیا اور ساری مسلم لیگ قیام پاکستان کے مطالبہ کی علمبردار بن گئی۔

Comments

Popular Posts